zahar

سپریم کورٹ نے آخری جھٹکا دے دیا: نورمقدم کیس میں ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار

مقامی


سپریم کورٹ نے نورمقدم قتل کیس میں ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھی

سپریم کورٹ نے سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا

ایک سپریم کورٹ نے سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا ظاہر جعفر کے لیے، پاکستان کے سب سے ہولناک صنفی بنیاد پر تشدد کیس میں ایک نازک لمحہ۔ نتیجتاً، تین ججوں پر مشتمل بنچ نے 2021 کے نور مقدام قتل کی سفاکانہ نوعیت کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی حتمی اپیل کو مسترد کر دیا۔

عدالت نے سفاکانہ قتل کے بعد انصاف کو تقویت دی۔

جولائی 2021 میں ظہیر کی اسلام آباد میں رہائش گاہ پر 27 سالہ نور مقدام کا سر قلم کیا گیا تھا۔ تحقیقات میں ناقابل بیان تشدد کا انکشاف ہوا۔ اس لیے، یہ فیصلہ نور کے لیے انصاف کو یقینی بناتا ہے اور پرتشدد جرائم میں استثنیٰ کے خلاف ایک مضبوط پیغام دیتا ہے۔

سپریم کورٹ میں حتمی اپیل مسترد

اگرچہ ظاہر کی قانونی ٹیم نے سی سی ٹی وی کی خامیوں اور طریقہ کار کی خامیوں کا حوالہ دیتے ہوئے شواہد کو مسترد کرنے کی کوشش کی، عدالت عظمیٰ بالآخر بھاری فرانزک اور تعریفی ثبوت کی بنیاد پر فیصلے کی توثیق کی۔ نتیجے کے طور پرپاکستان کے نظام انصاف پر عوام کا اعتماد بحال ہوا۔

عصمت دری اور قتل کے لیے سزائے موت برقرار ہے۔

اصل میں 2022 میں سزا سنائی گئی، ظاہر کو دو سزائے موت دی گئی - ایک عصمت دری کے لیے، دوسری قتل کے لیے۔ مزید برآں، اعلیٰ ترین عدالت نے ٹرائل کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابقہ ​​فیصلوں کو درست قرار دیتے ہوئے دونوں سزاؤں کو برقرار رکھا۔

کمرہ عدالت کے چونکا دینے والے لمحات اور سماجی اثرات

مزید برآں، بنچ نے وسیع تر مسائل پر توجہ دی جیسے نوجوانوں میں منشیات کا سامنا کرنا اور غیر زیر نگرانی رہنے والے تعلقات کے خطرات۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے زور دیا کہ یونیورسٹیوں میں میتھ کا بڑھتا ہوا استعمال فوری نفاذ اور اصلاحات کا مطالبہ کرتا ہے۔

انصاف برائے نور اور قوم کے نام پیغام

نور کے والد، سابق سفارت کار شوکت مقدم، پوری طرح پرعزم رہے۔ آخر میں، انصاف کے لیے ان کی درخواست سن لی گئی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے اس فیصلے کو صنفی بنیاد پر تشدد کا شکار ہونے والوں کے لیے ایک اہم فتح قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

سانحہ خضدار: اسکول بس دھماکے میں معصوم بچوں کی جانیں گئیں۔